Maunath Bhanjan Mau (U.P)

Jamia Miftahul Uloom Mau

مسلمان خواتین کے حقوق اور ذمہ داریاں


عورت انسانی معاشرے کا نصف ہے، اور انسانیت کی بقا، تربیت، اور تہذیب میں اس کا کردار ناقابلِ انکار ہے۔ عورت صرف ایک فرد نہیں بلکہ نسلوں کی معمار ہے۔ ہر عظیم انسان کے پیچھے ایک عورت، ایک ماں، ایک معلمہ اور ایک رہنما کی شکل میں کردار ادا کر رہی ہوتی ہے۔ اسلام نے عورت کو محض صنفِ نازک نہیں کہا، بلکہ اسے عزت، وقار اور حقوق کے بلند ترین درجے عطا کیے۔ تاہم جب ہم انسانی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو عورت کی حیثیت و مقام کے بارے میں مختلف نظریات، روایات اور رویے سامنے آتے ہیں۔ ان کا فہم و تجزیہ ہمیں اس قابل بناتا ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عورت کی اصل پہچان کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔

1. عورت کی تخلیق اور اس کا مقام

عورت کی تخلیق قرآن و سنت کی روشنی میں ایک بامقصد عمل ہے، نہ کہ کوئی حادثاتی یا ثانوی وجود۔ قرآن کریم نے واضح انداز میں بیان کیا:

وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا(النساء: 1)

یعنی "اللہ نے ایک نفس (آدم) سے تمہیں پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا (حوّا) پیدا کیا"۔
یہ آیت اس تصور کو رد کرتی ہے کہ عورت کسی ادنیٰ یا گناہگار مخلوق کے طور پر پیدا کی گئی ہے۔ اسلام میں عورت کی تخلیق کا مقصد انسانیت کی تکمیل، محبت، مودّت، اور سکون کا ذریعہ بننا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عورتیں مردوں کی شریک حیات اور رفیقِ زندگی ہیں" (الحدیث) یعنی ان کا درجہ مساوی ہے، مگر فطرت اور ذمہ داریاں مختلف ہو سکتی ہیں۔
اسلامی نقطہ نظر کے مطابق عورت نہ صرف معاشرتی توازن کی ضامن ہے بلکہ روحانی اور اخلاقی تربیت کا سرچشمہ بھی ہے۔ ماں کے روپ میں اس کا مقام اتنا بلند ہے کہ جنت کو اس کے قدموں تلے قرار دیا گیا۔ بیٹی، بہن اور بیوی کے روپ میں بھی اسے رحمت، عزت اور احترام کی نظر سے دیکھا گیا۔

2. مختلف تہذیبوں میں عورت کا تصور

اسلام سے قبل کی دنیا میں عورت کی حیثیت حد درجہ مظلوم، کم تر اور بعض اوقات انسانیت سے خارج سمجھی جاتی تھی۔ اگر ہم مختلف تہذیبوں کا مطالعہ کریں تو ایک افسوسناک تصویر سامنے آتی ہے:

ہندو تہذیب:

اقدیم ہندو متون میں عورت کو مرد کا تابع و غلام مانا جاتا تھا۔ "منو سمرتی" جیسے سنسکرت صحیفوں میں بیان کیا گیا کہ "عورت کو ہمیشہ کسی مرد کے تابع رہنا چاہیے: بچپن میں باپ کے، جوانی میں شوہر کے اور بڑھاپے میں بیٹے کے۔" بیوہ عورت کو شوہری کی چتا پر زندہ جلانا (ستی) بھی اسی تہذیب کا حصہ تھا۔

یونانی تہذیب:

یونان میں عورت کو مرد کے لیے محض ایک لذت کا ذریعہ اور نفسیاتی تسکین کا وسیلہ سمجھا جاتا تھا۔ فلسفی افلاطون اور ارسطو جیسے مفکرین بھی عورت کو کم تر دماغی و اخلاقی صلاحیتوں کی حامل مانتے تھے۔

رومانی تہذیب:

رومی معاشرہ عورت کو قانونی شخصیت کا درجہ دینے سے انکار کرتا تھا۔ اسے خاندانی جائیداد کا وارث نہیں بنایا جاتا تھا اور اکثر عورتوں کی حیثیت غلاموں جیسی ہوتی تھی۔

عرب جاہلیت:

اسلام سے قبل عرب معاشرہ بھی عورت دشمنی میں معروف تھا۔ لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا معمول تھا۔ عورت کو وراثت، عزت، اور رائے دینے کا کوئی حق نہ تھا۔ ان کی موجودگی کو خاندان کے لیے باعثِ عار سمجھا جاتا تھا۔
ان تہذیبوں میں عورت یا تو مظلوم تھی، یا بے حیثیت۔ اس پس منظر میں اسلام کی آمد نے عورت کو عزت، وقار، اور انسانیت کا وہ مقام دیا جس سے پہلے وہ محروم تھی۔

3. اسلام کی آمد سے قبل اور بعد عورت کی حالت

اسلام سے قبل عورت مظلومیت کی تاریکیوں میں گھری ہوئی تھی۔ خصوصاً عرب معاشرہ عورت کے وجود کو جرم اور عار سمجھتا تھا۔ لڑکی کی پیدائش پر خاندان میں ماتم ہوتا، بعض اوقات نومولود بچیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا۔ قرآن مجید نے اس ظلم کی منظر کشی ان الفاظ میں کی:

وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ، بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ (التکویر: 8-9)

"جب زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس جرم میں قتل کی گئی؟"
عورت کو وراثت سے محروم رکھا جاتا، اس کی شادی اس کی مرضی کے بغیر طے ہوتی، اور شوہر کے مرنے کے بعد وہ خود ورثے کا حصہ سمجھی جاتی۔
اسلام کی آمد نے ان تمام جاہلانہ رسموں اور خیالات کو ختم کیا۔ سب سے پہلے عورت کو انسان کا درجہ دیا گیا، پھر اس کی روحانی، معاشی اور سماجی حیثیت کو واضح کیا گیا۔
  • بیٹی کے روپ میں فرمایا: "جس نے دو بیٹیوں کی اچھی پرورش کی، وہ جنت کا مستحق ہے۔"
  • ماں کے بارے میں فرمایا: "تمہاری جنت تمہاری ماں کے قدموں تلے ہے۔"
  • بیوی کے بارے میں فرمایا: "عورت تمہارے لیے لباس ہے اور تم ان کے لیے لباس ہو۔"
اسلام نے عورت کو تعلیم کا حق دیا، جائیداد کا مالک بنایا، گواہی اور نکاح میں اس کی رائے کو لازم قرار دیا۔ خدیجہؓ، عائشہؓ، فاطمہؓ، حفصہؓ جیسے مثالی کرداروں نے ثابت کیا کہ عورت نہ صرف دین کی خدمت کر سکتی ہے بلکہ علم، ادب، سیاست، اور اصلاحِ امت میں بھی بھرپور کردار ادا کر سکتی ہے۔

اسلام میں خواتین کے حقوق

1. دینی و روحانی حقوق: عبادت، تعلیم، نیکی کی تلقین

اسلام نے خواتین کو دینی اور روحانی اعتبار سے مردوں کے برابر مقام عطا کیا۔ قرآن و سنت میں عورت کو ایک مستقل روحانی شخصیت کے طور پر تسلیم کیا گیا، جس کی عبادات، نیک اعمال، اور تقویٰ کا وزن مرد کی مانند ہے:

إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ... وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ... أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا" (الاحزاب: 35)

یعنی مرد و عورت سب یکساں طور پر نیکی کے مستحق ہیں اور اللہ نے ان سب کے لیے مغفرت اور اجر عظیم تیار کیا ہے۔
عورت پر نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج جیسے فرائض اسی طرح لازم ہیں جیسے مرد پر۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

طلب العلم فریضۃ علیٰ کل مسلم

عنی علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت) پر فرض ہے۔
عورت کو نہ صرف علم حاصل کرنے کا حق دیا گیا بلکہ دوسروں کو نیکی کی تلقین کرنے کا بھی اختیار دیا گیا۔ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ، حضرت ام سلمہؓ، اور دیگر صحابیات علمِ حدیث، فقہ اور دینی مسائل کی تعلیم میں معروف تھیں۔

2. معاشرتی حقوق: عزت، وراثت، نکاح و طلاق کے اختیارات

اسلام نے عورت کو معاشرتی سطح پر وہ عزت اور مقام دیا جو تاریخ میں بے نظیر ہے۔ ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کی حیثیت سے اسے عزت کا مقام دیا گیا۔ عورت کو وراثت میں حصہ دیا گیا، جو قبل از اسلام ناپید تھا:

لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ" (النساء: 11)

یعنی بیٹے کو دو حصے اور بیٹی کو ایک حصہ، لیکن بیٹی کو وراثت سے محروم نہیں کیا گیا۔

نکاح کے معاملے میں عورت کی رضا کو بنیادی شرط قرار دیا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"بیوہ عورت کا نکاح اس کے حکم کے بغیر اور کنواری کا اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے" (مسلم)۔

طلاق کے معاملے میں بھی عورت کو حقوق دیے گئے، مثلاً خلع کا حق، جس کے تحت عورت اگر کسی وجہ سے شوہر سے علیحدگی چاہے تو قاضی کے ذریعے نجات حاصل کر سکتی ہے۔ شوہر کو طلاق کا حق ضرور حاصل ہے، مگر عورت کو تحفظ اور تحفظِ حقوق کی ضمانت بھی حاصل ہے۔

3. معاشی حقوق: جائیداد کی ملکیت، تجارت، ملازمت

اسلام نے عورت کو مکمل مالی خود مختاری دی۔ وہ جائیداد کی مالک بن سکتی ہے، تجارت کر سکتی ہے اور اپنی کمائی پر مکمل اختیار رکھتی ہے۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی مثال سامنے ہے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہونے سے قبل ہی ایک کامیاب تاجرہ تھیں۔ اسلامی قانون کے مطابق، عورت کی مہر، وراثت، ہدیے یا ذاتی کمائی اس کی ملکیت ہے، اور اس میں شوہر یا باپ کا کوئی حق نہیں۔
عورت اگر ملازمت کرتی ہے تو اس کی آمدنی اسی کی ہے۔ شوہر پر اس کی کفالت فرض ہے، اور عورت کی کمائی اس پر خرچ کرنا شرعاً ضروری نہیں، جب تک وہ خود راضی نہ ہو۔

4. تعلیمی حقوق: علم حاصل کرنا فرض، اولین حق

اسلام نے عورت کو تعلیم کا وہ حق دیا جس سے قبل اسے تعلیم سے محروم رکھا جاتا تھا۔ قرآن کا پہلا حکم ہی "اقْرَأْ" یعنی "پڑھ" ہے، جو مرد و عورت دونوں پر یکساں لاگو ہوتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو خاص طور پر تعلیم دینے کے لیے دن مقرر فرمایا۔ حضرت عائشہؓ نے نہ صرف علم حاصل کیا بلکہ ہزاروں احادیث روایت کر کے اسلامی تعلیمات کو آگے پہنچایا۔
تعلیم صرف دینی نہیں بلکہ دنیاوی علوم میں بھی عورتوں کو آگے بڑھنے کی ترغیب دی گئی، بشرطیکہ وہ شرعی حدود کی پابندی کریں۔ تعلیم کو عورت کے لیے "روح کی غذا" اور معاشرے کی ترقی کی بنیاد سمجھا گیا۔

5. سیاسی و سماجی حقوق: مشورہ دینا، رائے رکھنا، بیعت کا حق

اسلام نے عورت کو رائے دینے، مشورہ دینے اور بیعت کرنے جیسے سیاسی اور سماجی حقوق بھی دیے۔ صلحِ حدیبیہ کے موقع پر حضرت ام سلمہؓ کا مشورہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کیا، جو اسلامی سیاسی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔
قرآن کریم میں بیعت النساء کا ذکر ہے، جس میں عورتوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر دین کے بنیادی اصولوں پر بیعت کی۔

یَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ..." (الممتحنہ: 12)

خواتین کو رائے رکھنے، اپنی بات کہنے اور سماجی معاملات میں حصہ لینے کا حق دیا گیا۔ خلیفہ عمر بن خطابؓ کے دور میں ایک خاتون نے خطبہ جمعہ کے دوران اعتراض کیا اور ان کا اعتراض تسلیم بھی کیا گیا۔

خواتین کی ذمہ داریاں (اسلامی تناظر میں)

1. گھریلو ذمہ داریاں: تربیتِ اولاد، شوہر کے حقوق

اسلام میں عورت کی بنیادی اور فطری ذمہ داریوں میں سے ایک اہم شعبہ گھر کی نگرانی اور اولاد کی تربیت ہے۔ ماں کی گود کو "پہلا مدرسہ" کہا گیا ہے، کیونکہ بچوں کی ابتدائی تربیت، اخلاق، ایمان اور عادات کی بنیاد وہیں پڑتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ہر ایک تم میں سے نگہبان ہے، اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا" (بخاری و مسلم)۔
اسلام عورت کو گھر کے انتظام و انصرام اور اولاد کی تربیت میں نہ صرف ذمہ دار سمجھتا ہے بلکہ یہ کام عبادت کے درجے میں آتا ہے، اگر وہ خلوصِ نیت سے کیا جائے۔
شوہر کے ساتھ حسنِ سلوک اور اس کے حقوق کی ادائیگی بھی عورت کی اہم ذمہ داری ہے۔ قرآن نے مرد و عورت دونوں کو ایک دوسرے کے "لباس" کہا، یعنی ایک دوسرے کے لیے سکون، تحفظ اور زینت۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، اس کے درجے کی عظمت کی وجہ سے" (ترمذی)۔
یہ شوہر کے ظلم یا جبر کا جواز نہیں، بلکہ عورت کی وفا، اطاعت اور حسنِ سلوک کے اجر و مقام کو ظاہر کرتا ہے۔

2. معاشرتی کردار: اخلاقی اقدار کی ترویج، دعوت و اصلاح

اسلام عورت کو صرف گھریلو کردار تک محدود نہیں کرتا بلکہ اسے معاشرے کی اصلاح، اخلاقی اقدار کے فروغ، اور دعوتِ دین کا حصہ بھی بناتا ہے۔ قرآن و حدیث میں مرد و عورت دونوں کو "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کا حکم دیا گیا ہے۔

وَالمُؤمِنُونَ وَالمُؤمِنَاتُ بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ يَأمُرونَ بِالمَعروفِ وَيَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ..." (التوبہ: 71)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خواتین نہ صرف علم دین حاصل کرتی تھیں بلکہ دوسروں کو بھی سکھاتی تھیں، سماجی فلاحی کاموں میں شریک ہوتی تھیں اور ضرورت پڑنے پر رائے دیتی تھیں۔
معاشرتی سطح پر عورت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اصلاحِ معاشرہ، دین کی ترویج اور اخلاق کی بہتری کے لیے کردار ادا کرے، خواہ وہ خواتین کے درمیان تدریسی، اصلاحی یا فلاحی سرگرمیوں کی صورت میں ہو۔

3. دینی فریضے: نماز، روزہ، پردہ، خیر کے کاموں میں حصہ لینا

اسلام میں عورت پر بنیادی دینی فرائض اسی طرح لازم ہیں جیسے مرد پر۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج عورت پر فرض ہیں، اور ان میں کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں، سوائے شرعی عذر کے۔
پردہ (حجاب) عورت کی اہم دینی ذمہ داریوں میں سے ہے۔ قرآن کریم نے واضح طور پر حکم دیا:

وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ... وَيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ" (النور: 31)

عورت کا پردہ کرنا نہ صرف اس کی عفت و عزت کی حفاظت ہے، بلکہ یہ اس کا دینی فریضہ بھی ہے۔
خیر و بھلائی کے کاموں میں حصہ لینا جیسے صدقہ، مساکین کی مدد، بیماروں کی تیمار داری، علمی و اصلاحی اجتماعات میں شرکت، اور خواتین کی تعلیم و تربیت میں کردار ادا کرنا—all یہ وہ دینی ذمہ داریاں ہیں جو عورت کے ایمان کا حصہ ہیں۔
حضرت عائشہ، حضرت اسماء، حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہن جیسی صحابیات نے دینی، فلاحی اور تعلیمی میدانوں میں بھرپور کردار ادا کر کے ان ذمہ داریوں کی عملی مثال قائم کی۔

عصر حاضر کے چیلنجز

1. مغربی نظریات کا اثر

عصر حاضر میں مسلمان خواتین کو سب سے بڑا چیلنج مغربی تہذیب اور اس کے نظریات سے درپیش ہے۔ مغرب نے عورت کو آزادی کے نام پر مرد کی تقلید کا راستہ دکھایا، جس میں نسوانیت کی فطری خصوصیات کو نظر انداز کر کے اسے محض معاشی اور جسمانی استعمال کی چیز بنا دیا۔
فیمینزم، لبرلزم، اور فرد کی مطلق آزادی جیسے نظریات اسلامی معاشرتی ڈھانچے سے متصادم ہیں۔ مغربی میڈیا اور تعلیمی نظام کے ذریعے خواتین میں حیاء، عفت، خاندانی نظام اور پردے جیسے اسلامی اصولوں کو پسماندگی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جس سے نئی نسل کے ذہنوں میں الجھن پیدا ہوتی ہے۔
اسلام خواتین کو عزت و عظمت دیتا ہے، جبکہ مغربی نظریات بظاہر آزادی دے کر عورت کو معاشی مشین یا ظاہری نمائش کا ذریعہ بنا دیتے ہیں۔ مسلمان خواتین کو ان نظریات سے متاثر ہوئے بغیر اسلامی اصولوں کی روشنی میں زندگی گزارنے کی ضرورت ہے۔

2. تعلیم و ملازمت کے میدان میں اعتدال

آج کی مسلم خواتین تعلیم اور ملازمت کے میدان میں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں، لیکن چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنی دینی، خاندانی اور اخلاقی ذمہ داریوں کو برقرار رکھتے ہوئے یہ سب کچھ کیسے انجام دیں۔
اسلام عورت کو تعلیم اور مناسب ملازمت کی اجازت دیتا ہے، بشرطیکہ وہ حدودِ شرعیہ کی پاسداری کرے، مخلوط ماحول سے بچے، پردہ اور عفت کو مقدم رکھے، اور گھر و خاندان کو نظر انداز نہ کرے۔
بعض خواتین دینی حدود سے تجاوز کر کے مکمل مغربی ماحول میں ضم ہو جاتی ہیں، تو بعض مذہبی طبقات خواتین کی ہر قسم کی تعلیم اور ملازمت کو ناجائز قرار دے دیتے ہیں۔ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال کا راستہ اختیار کرنا ہی اسلام کی اصل تعلیم ہے۔

3. سوشل میڈیا اور خواتین

سوشل میڈیا نے جہاں اظہار رائے اور علم و آگاہی کا ذریعہ فراہم کیا، وہیں یہ عورتوں کے لیے ایک نیا فتنہ بھی بن گیا ہے۔ خواتین کی تصاویر، ذاتی معلومات اور جذباتی معاملات کی عام تشہیر نے ان کی نجی زندگی اور عزت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
بہت سی خواتین سوشل میڈیا پر فالوورز اور پسندیدگی (Likes) کے پیچھے حجاب، شرم و حیاء اور اسلامی اقدار کو پسِ پشت ڈال دیتی ہیں، جس سے روحانی اور سماجی نقصان ہوتا ہے۔
اسلام عورت کو حیاء، پردہ، سکون اور وقار کا پیکر بناتا ہے، جبکہ سوشل میڈیا اسے ظاہری نمائش، مقابلہ بازی اور شہرت کی راہوں پر لے جا رہا ہے۔ خواتین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس پلیٹ فارم کو صرف مثبت، تعمیری اور اسلامی دائرے میں رہ کر استعمال کریں۔

4. جنسی استحصال، حقوق نسواں تحریک

عصر حاضر میں خواتین کو جنسی استحصال (Harassment) جیسے گہرے مسائل کا سامنا ہے۔ دفاتر، تعلیمی اداروں اور آن لائن پلیٹ فارمز پر عورتوں کو ہراسانی، بلیک میلنگ اور اخلاقی دباؤ کا سامنا ہوتا ہے۔
اسلام نے اس کا حل عورت اور مرد دونوں کے لیے پاکیزگی، حجاب، اور نگاہ نیچی رکھنے میں رکھا ہے۔
دوسری طرف، خواتین کے حقوق کی تحریکیں (Women Rights Movements) جنسی استحصال کے خلاف آواز تو اٹھاتی ہیں، مگر اکثر اسلامی حدود کو تسلیم کیے بغیر، آزادی کو اس کا واحد حل سمجھتی ہیں، جو کہ بعض اوقات مزید بگاڑ کا سبب بن جاتی ہیں۔
اسلام خواتین کے حقوق کا علمبردار ہے، لیکن اس کے حل شریعت کے مطابق، فطری توازن اور ذمہ داریوں کے ساتھ فراہم کرتا ہے، نہ کہ صرف آزادی کے نعرے لگا کر۔

خواتین کی ذمہ داریاں اور عصری تقاضے

1. تعلیم اور ٹیکنالوجی میں شمولیت

عصر حاضر میں تعلیم اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے۔ مسلم خواتین کے لیے اس میدان میں شمولیت نہ صرف ایک ضرورت بن چکی ہے بلکہ ایک شرعی تقاضا بھی ہے، کیونکہ علم حاصل کرنا مرد و عورت دونوں پر فرض ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے" (ابن ماجہ)۔
ٹیکنالوجی میں مہارت کے ذریعے خواتین آن لائن تعلیم، تحقیق، طب، ڈیجیٹل ڈیزائن، اور دیگر مفید میدانوں میں خدمات انجام دے سکتی ہیں، بشرطیکہ وہ شریعت کی حدود کا خیال رکھیں۔ جدید تعلیم و ٹیکنالوجی کی مدد سے خواتین گھر بیٹھے تعلیم حاصل کر سکتی ہیں اور دوسروں کو سکھا بھی سکتی ہیں، جس سے ان کے کردار میں وسعت آتی ہے۔

2. شریعت کی روشنی میں ملازمت

اسلام نے خواتین کو معاشی سرگرمیوں اور ملازمت کی اجازت دی ہے، مگر وہ شریعت کے رہنما اصولوں کے ساتھ مشروط ہے۔ ان اصولوں میں عورت کی عفت و حیا کا تحفظ، حجاب، مرد و زن کے آزادانہ اختلاط سے اجتناب، اور خاندانی ذمہ داریوں کو مقدم رکھنا شامل ہے۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ایک کامیاب تاجرہ تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کاروبار کو سراہا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خواتین شرعی دائرے میں رہتے ہوئے ملازمت اور کاروبار کر سکتی ہیں۔
موجودہ دور میں طبی، تدریسی، ترجمہ، آن لائن خدمات، اور خواتین کی فلاحی تنظیموں کے ذریعے ملازمت کے مواقع موجود ہیں، جنہیں شریعت کے مطابق اختیار کیا جا سکتا ہے۔

3. اسلامی حجاب کے ساتھ عوامی کردار

اسلامی حجاب عورت کی پہچان، اس کی عزت اور وقار کا ضامن ہے۔ حجاب عورت کو معاشرے میں باوقار طریقے سے سرگرم کردار ادا کرنے کی اجازت دیتا ہے، بغیر اس کی نسوانیت کو مجروح کیے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے: "اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادریں اپنے اوپر لٹکا لیا کریں، یہ ان کے پہچانے جانے کے لیے بہتر ہے تاکہ وہ اذیت نہ دی جائیں" (الاحزاب: 59)۔
حجاب کے ساتھ خواتین عوامی شعبوں جیسے تعلیم، دعوت، طب، تربیت، اور خواتین کی فلاح کے اداروں میں حصہ لے سکتی ہیں۔ شرط یہ ہے کہ ان کا ظاہری اور باطنی کردار اسلامی وقار کے مطابق ہو۔

4. خاندانی نظام میں توازن پیدا کرنا

اسلامی تعلیمات میں عورت کا کردار گھر کی بنیاد کو مضبوط کرنے والا ہے، جبکہ عصر حاضر کی مصروفیات، ملازمت، تعلیم اور دیگر ذمہ داریوں نے خاندانی نظام میں توازن کو ایک چیلنج بنا دیا ہے۔
مسلم خواتین کے لیے ضروری ہے کہ وہ تعلیم، ملازمت، سماجی کردار اور گھریلو ذمہ داریوں کے درمیان توازن قائم کریں۔ اس کے لیے وقت کی منصوبہ بندی، ترجیحات کی ترتیب، اور شوہر و اہلِ خانہ کے ساتھ ہم آہنگی ضروری ہے۔
اسلام عورت کو مجبور نہیں کرتا کہ وہ صرف گھر یا صرف باہر کے کاموں تک محدود رہے، بلکہ توازن اور اعتدال کے ساتھ دونوں میں شرکت کی اجازت دیتا ہے۔ خاندانی استحکام کے لیے یہ توازن لازمی ہے۔

امت کی فلاح میں خواتین کا کردار

1. دینی اداروں میں خواتین کی خدمات

اسلامی تاریخ میں خواتین نے دینی تعلیم و تربیت کے شعبے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نہ صرف ایک فقیہہ اور محدثہ تھیں بلکہ کئی صحابہ ان سے علم حاصل کرتے تھے۔ آج کے دینی اداروں میں بھی خواتین قرآن و حدیث کی تعلیم، فہمِ دین، اور دعوتی سرگرمیوں میں بھرپور خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔
مدارس، جامعات، آن لائن اسلامی کورسز، اور خواتین کے لیے مخصوص تربیتی ادارے ان کی خدمات کا عملی میدان ہیں۔ یہ ادارے صرف علم کی فراہمی تک محدود نہیں بلکہ تربیت، اصلاحِ معاشرہ، اور اسلامی اقدار کی ترویج کا ذریعہ بھی ہیں۔ خواتین کی دینی خدمات، موجودہ وقت کی دینی بیداری اور امت کی اصلاح میں کلیدی اہمیت رکھتی ہیں۔

2. علمی و فکری تحریکات میں حصہ

علمی و فکری سطح پر مسلم خواتین کا کردار اسلام کے ابتدائی ادوار سے ہی روشن رہا ہے۔ ماضی میں خواتین نے حدیث، فقہ، ادب اور منطق جیسے شعبوں میں کام کیا۔ موجودہ دور میں اسلامی فکر، تربیت، دعوت اور تحقیقی میدانوں میں خواتین کی شرکت امت کے علمی ارتقاء کے لیے ناگزیر ہے۔
تحقیقی مجلّات، اسلامی کانفرنسز، آن لائن ویب سائٹس، ویبنارز، اور علمی حلقوں میں خواتین کی شمولیت فکری شعور کو جِلا بخشتی ہے۔ وہ خواتین جو دینی علم کے ساتھ عصری علوم سے بھی واقف ہوں، وہ معاشرے میں فکری توازن اور اعتدال کا پیغام مؤثر انداز میں پہنچا سکتی ہیں۔

3. ماں کے کردار کا معاشرتی اثر

امت کی فلاح میں ماں کا کردار سب سے بنیادی اور مؤثر ہے۔ ایک نیک، باشعور اور علم دوست ماں نسلوں کی تربیت کرتی ہے، جس سے ایک بااخلاق اور باکردار معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ قرآن کریم میں والدین کی تربیت کو اولاد کے رویے سے جوڑا گیا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا" (بخاری و مسلم)۔
ماں کی گود کو پہلی درسگاہ قرار دیا گیا ہے، جہاں صرف الفاظ نہیں بلکہ کردار اور اخلاق سکھائے جاتے ہیں۔ موجودہ دور میں اسلامی اقدار، تہذیب، اور علم کا انتقال ماں کے کردار سے جڑا ہوا ہے۔ اگر ماں مضبوط ہو تو معاشرہ خود بخود سدھر جاتا ہے۔

نتیجہ

اسلام نے عورت کو وہ مقام دیا جو کسی بھی دوسری تہذیب یا مذہب نے نہیں دیا۔ اسے ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کے ہر رُوپ میں عزت، محبت اور تحفظ عطا کیا۔ قرآن و حدیث میں عورت کے حقوق و وقار کا تذکرہ بڑے واضح انداز میں موجود ہے۔ اسلامی تعلیمات عورت کو سماج کا معزز، باوقار اور بامقصد فرد تسلیم کرتی ہیں، نہ کہ صرف جسمانی یا معاشی وجود۔
اسلام نے جہاں عورت کو مکمل حقوق دیے، وہیں اس پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد کیں۔ صرف حقوق کا مطالبہ ایک نامکمل سوچ ہے۔ ایک صالح اسلامی معاشرہ تبھی وجود میں آتا ہے جب عورت اپنی گھریلو، معاشرتی، دینی اور اخلاقی ذمہ داریوں کو شعور اور دیانتداری سے ادا کرے۔ امت کی اصلاح اور نسلوں کی تربیت اسی توازن سے ممکن ہے۔
موجودہ دور کے چیلنجز، نظریاتی فتنوں، اور ٹیکنالوجی کے سیلاب میں خواتین کے لیے اعتدال اور دینی رہنمائی بہت ضروری ہے۔ نہ مکمل دنیا داری اور نہ ہی مکمل گوشہ نشینی، بلکہ ایک متوازن راستہ جس میں دینی اقدار کے ساتھ عصر حاضر کی ضروریات کو سمجھا جائے۔ یہی اعتدال اسلام کی اصل روح ہے۔
اسلامی رہنمائی کی روشنی میں زندگی گزارنے والی عورت دینی اور دنیاوی دونوں میدانوں میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ وہ نہ صرف ایک اچھی ماں، بیوی یا بیٹی بنتی ہے بلکہ ایک باشعور فرد کے طور پر معاشرے کی اصلاح، ترقی اور رہنمائی میں بھی کردار ادا کرتی ہے۔ یہی راستہ عورت کی حقیقی کامیابی اور امت کی فلاح کا ضامن ہے۔

حاليه مضامین و دیگر مشمولات



قوم و ملت کی ترقی تعلیم سے وابستہ ہے؛ اپنے بچوں کے روشن دینی مستقبل کے لیے جامعہ مفتاح العلوم کا انتخاب کیجیے۔

رابطہ

موبائل نمبر:

ای میل :

پتہ: شاہی کٹرہ مئوناتھ بھنجن ضلع مئو، اترپردیش، ۲۷۵۱۰۱۔ انڈیا

Copyright © 2025 Jamia Miftahul Uloom. All Rights Reserved.