Maunath Bhanjan Mau (U.P)
سوال : ہمارے یہاں خاندانی رسم کی بنا پر ختنے کی تقریب ہوتی ہے جس میں اقرباء اور رشتے داروں کو مدعو کیا جاتا ہے‘ایسی تقریب کرنا یا اس میں شریک ہونا از روئے شرع کیسا ہے؟
(دار العلوم دیوبند کا یہ فتوی ویب ڈیلولپر کی جانب سےبرائے نمونہ شائع کیا گیا ہے)
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1299-940/M=11/1443
ختنہ كی دعوت ثابت نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے زمانے میں یہ دعوت نہیں ہوتی تھی۔ چنانچہ مسند احمد میں ہے: دعي عثمان بن أبي العاص رضي الله عنه إلى ختان فأبى أن يجيب فقيل له، فقال: إنا كنا لا نأتي الختان على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم و لا ندعى له. (مسند أحمد) (مستفاد أحسن الفتاوى: 8/155) اس لیے سنت یا ثابت سمجھ كر ختنے كی دعوت كرنا درست نہیں، اسی طرح رسم و رواج كی پابندی میں بھی دعوت كرنے كو ضروری سمجھنا غلط ہے، ہاں اگر رواج كا كوئی دباؤ نہیں ہے اور سنت یا ثابت سمجھ كر بھی نہ كیا جائے بلكہ محض سنت كے شكرانے كے طور پر (ختنہ چونكہ سنت ہے) اگر كوئی دعوت كرلے جب كہ یہ تقریب خلاف شرع امور سے پاك ہو تو شرعاً حرج نہیں، یہ درست ہے چنانچہ حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب عثمانی رحمہ اللہ ایك استفتاء كے جواب میں تحریر فرماتے ہیں ’’ختنہ كی تقریب میں اقرباء و احباب كو بلانا اور دعوت كرنا درست ہے‘‘ اور ایك دوسرے سوال (ختنہ پر دعوت كرنا كیسا ہے؟: آجكل علاقہ ہذا میں اس مروجہ كھانے كو عوام ضروری سمجھتے ہیں، اسی واسطے بعض بچے بے ختنہ سن بلوغ كو پہونچ جاتے ہیں شرعاً كیا حكم ایسی حالت میں ہوگا) كے جواب میں تحریر فرماتے ہیں كہ ’’ ختنہ پر دعوت كرنا درست ہے لیكن اس كو ضروری سمجھنا یا اس وجہ سے ختنہ نہ كرانا ممنوع و قبیح ہے ایسی رسومات كو چھوڑ دینا چاہئے۔ (فتاوی دارالعلوم دیوبند: 16/264-265)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

رابطہ
موبائل نمبر:
ای میل :
پتہ: شاہی کٹرہ مئوناتھ بھنجن ضلع مئو، اترپردیش، ۲۷۵۱۰۱۔ انڈیا
Copyright © 2025 Jamia Miftahul Uloom. All Rights Reserved.
Developed by "SHURUQIFY" Web Solutions Pvt Ltd