انیسویں صدی کے اواخر میں، جب ہندوستان میں انگریزوں کی طرف سے الحاد اور مغربی افکار کا سیلاب آیا، تو علمائے دین نے ملت کو فکری غلامی سے نجات دلانے کے لیے متعدد علمی و روحانی اداروں کی بنیاد رکھی۔ انہی میں ایک اہم قدم 1877ء میں دارالعلوم دیوبند کے قیام کے سولہویں سال، مئوناتھ بھنجن (ضلع مئو) میں اٹھایا گیا، جہاں کی تاریخی شاہی مسجد کے وسیع صحن میں مدرسہ مفتاح العلوم کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔
اس ادارے کا قیام کسی وقتی ضرورت کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے ایک ہمہ جہت اور جامع دینی منصوبہ کارفرما تھا۔ اس کا بنیادی مقصد قرآن و سنت کی بنیاد پر ایسا مؤثر اور مربوط نظامِ تعلیم قائم کرنا تھا جو دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری تقاضوں کو بھی سامنے رکھے۔
مدرسہ مفتاح العلوم نے اپنے آغاز ہی سے صرف مئو نہیں بلکہ اطراف و اکناف کے علاقوں میں بھی علم دین کی شمع روشن کی۔ اس ادارے نے مذہبی بیداری، دینی تعلیم، اور فکری آزادی کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ: ہندوستانی طلبہ کے لیے ایک روحانی اور علمی مرکز بن گیا۔
آج ہزاروں کی تعداد میں فارغینِ جامعہ، ملک بھر میں علم دین کی تدریس، تبلیغ، اور اشاعت میں مصروف ہیں۔ فارغین اپنے نام کے ساتھ “مفتاحی” لکھ کر اس ادارے سے نسبت کو باعثِ فخر سمجھتے ہیں، جو اس کے علمی وقار، روحانی اثرات اور دینی خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
بشمول جملہ اسلامی علوم' ایسی معیاری تعلیم فراہم کرنا جو صحیح علمی روایات سے وابستہ ہو، جدید ذہن کے شکوک و شبہات کا جواب دے سکے نیز امت کو درپیش چیلنجز کا حل پیش کرے
خالص اسلامی تعلیمات کی روشنی میں علمِ نافع کی فراہمی، فکری و اخلاقی تربیت، اور دینی و اصلاحی شعور کے ساتھ ایک باکردار، باعمل اور زیورِ علم سے آراستہ امت کی تشکیل۔
جامعہ مفتاح العلوم مئو درس نظامی کا مکمل نصاب پیش کرتا ہے جس میں قرآن و حدیث، فقہ، تفسیر اور عربی ادب شامل ہیں۔ حفظ القرآن کا خصوصی شعبہ، عصری تعلیم (جونیئر سے انٹرمیڈیٹ تک) اور طالبات کے لیے الگ تعلیمی ادارہ قائم ہے۔ فارسی و اردو ادب کے شعبہ جات بھی موجود ہیں۔ جامعہ کا تعلیمی نظام دینی و دنیاوی علوم کا حسین امتزاج پیش کرتا ہے۔