Maunath Bhanjan Mau (U.P)

Jamia Miftahul Uloom Mau

تعارفِ جامعہ


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمداللہ وکفٰی و سلٰم علیٰ عبادہ الذین اصطفیٰ۔ امابعد

قوموں کی زندگی میں کچھ واقعات ایسے پیش آجاتے ہیں جو ان کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں، مدرسہ مفتاح العلوم مئو کا قیام و وجود اور اس کی عملی و دینی پیش رفت شمالی مشرقی ہندوستان میں ایسی ہی اہمیت کا حامل ہےجس نے اس پورے خطے کے مسلمانو ں میں ایسا دینی استحکام اور دین حق سے اتنی گہری وابستگی پیدا کر دی ہے کہ مستقبل کی باطل طاقتیں انہیں متزلزل نہیں کر سکیں گی۔اِن شاء اللہ !

منظر پس منظر

انیسویں صدی کے دسط واد خر میں یورپ کی نو آبادیاتی طاقتوں خاص کر برطانیہ و فرانس نے ساری دنیا سے مسلمانون کی سلطنت ختم کرنے اور اس سے بھی زیادہ ان کے دین کو مادیت پرستی اور مغربی علوم یلغار سے ختم کرنے کا ایک منصوبہ بنایا کہ مسلمانون کی دینی و دنیوی ترقی کے اسباب ان کے دین ہی میں مضمر تھے۔ اس عیارانہ منصوبہ کے تحت انگریزوں نے ہندوستان میں بھی مسلمانوں کی دینی حمیت اور مذہبی زندگی کو ختم کرنے کے صرف دنیاداری اور عیش پرستی میں ڈبو کر ان کی انفرادیت کو مٹانے کی کوشش کی مگر ہمارے علماء دین نے بہت جلد محسوس کر لیاکہ مسلمانوں کا دینی انحطاط اور ان کی مذہب بیزاری ان کو ذلت و ضلالت کے گہرے غار میں ڈھکیل کر انھیں فنا کر دیگی۔ اس شکست خوردگی بے بسی اور آمادہ بہ زوال ذہنیت کو ختم کر نے کا صرف ایک ہی طریقہ تھایعنی دوبارہ بڑے پیمانے پر مسلمانوں میں دینی تعلیم کو زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے جس سے عقیدہ اور کردار کی تشکیل مکمل طور پر ہو اور توسیع علم سے پھر وہ روہانی و ذہنی قوت پیدا کی جائے جس نے مسلمانوں کو دنیا کا حکمراں بنا رکھا تھا، جنھو نے یورپ اور ایشیاکےتاریک گوشوں کو علوم کی روشنی سے منور کر کے علم و تہذیب کی دولت سے مالامال کر دیا اور ان کی طاقت عالمی اقتدار کی نہایت مستحکم بنیاد بن گئی۔
ہندوستان میں انگریزوں کے دور غلامی میں مسلمانان ہند بری طرح الحاد و ارتداد کی لعنتوں کے شکارہو رہے تھے، لہٰذا ہمارے علماء دین نے ایک جامع منصوبہ بنایا جو بہ یک وقت مسلمانوں میں مذہبی نشئاۃ ثانیہ کی تحریک پیدا کر نے اور اپنی روحانی قوت سے تحفظ دین کی خاطر مسلمان غلامی کی زنجیر توڑ کر انگریزوں کو ملک سے نکل جانے پر مجبور کر دیا، خدا کے ٖفضل و کرم سے ان کا منصوبہ کامیابی سے ہم آغوش ہوا۔
تاریخ ہند کا یہ نا قابل تردید حصہ ہےکہ جنگ آزادی کی یہ تحر یک علمائے دین کی طرف سے ہوئی اور علمائے دین کی ہی جاں نثاری کی وجہ سے ہندوستان میں ایک قومی حرارت پیدا ہوئی جس نے انگریزوں کو ہندوستان سے نکل بھاگنے پر مجبور کر دیا۔

بانیانِ جامعہ مفتاح العلوم

سنِ قیام - 1877

دورِ اول - مولانا امام الدین پنجابی ؒ

علمائے دین اس عظیم مقصد کے لئے 1861ء میں مداسہ دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈالی اور ایسا لگتا ہے کہ اسی مذہبی و روحانی تحریک کی ایک کڑی کے طور پر مولانا اما م الدینؒ پنجابی نے مشرقی اضلاع کے مشہور صنعتی مر کز مئوناتھ بھنجن میں مدرسہ مفتاح العلوم کی بنیاد 1877ء میں ڈالی۔
مولانا پنجابی ؒ نے مئو میں جگہ کا انتخاب بھی شاید التزاما شاہی مسجد کے وسیع صحن کا کیا جو چہارطرف ایک کٹرہ سے محیط ہے، جسے مغلیہ شاہزادی جہاں آرا بنت شاہجہاں نے تعمیر کرایا تھا۔
جامعہ مفتاح العلوم کی تشکیل وقیام ہی وہ واقعہ ہے جس نے نہ صرف مئو بلکہ اطراف مئو اور بعد میں دور دور تک کے علاقوں کو دین حق اور علوم دینیہ کی روشنی سے منور کرنا شروع کیا اور آج جامعہ نہ صرف مشرقی اتر پردیش بلکہ آسام، بہار ،بنگال ،اڑیسہ اور مہاراشٹر کے طلبہ کی کشش کا خاص مرکز بن چکا ہے، جہاں سے تحصیل علم کے بعد ہزاروں کی تعداد میں علماء ، فضلاء ، حفاظ اور قراء ملک کے گوشے گوشے میں تعلیم و تدریس ، تبلیغ اور اشاعت دین میں مصروف ہیں اور اپنے اپنے اسمائے گرامی کے سامنے مفتاحی لکھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

دورِ ثانی

حضرت مولانا اما م الدینؒ کے انتقال کے بعد 1335ھ میں ان کے شاگرد رشید مولانا ابوالحسن صاحبؒ ان کے جانشین اور ناظم کی حیثیت سے مدرسہ کی خدمات انجام دیتے رہے مولانا ابو الحسن صاحب کے بڑھاپے کی وجہ سے جب مفتاح العلوم کے نظام تعلیم میں اضمحلال پیدا ہوا تو مولانا ابوا لحسن صاحب نے 1927 ء میں محدث کبیر امیر الہند أبو الماثر حضرت مولانا حبیب الرحمٰن الاعظمی رحمۃ اللہ علیہ کوجو اس وقت مظہر العلوم بنارس میں استاد تھے بلا لیا، اس کے دو ماہ بعد مجاہد جلیل حضرت مولانا عبد ا للطیف صاحب نعمانی نوراللہ مرقدہ اور چند ماہ بعد شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد ایوب صاحب اعظمی طاب ثراہ جیسی عظیم شخصیتیں دست و بازو بن کراس قافلہ میں شامل ہو گئیں اس طرح مفتاح ا لعلوم جو چراغ سحری ہو رہا تھا حیات نو ملی اور اسی سال سے دورہ حدیث تک کی تعلیم شروع ہوئی، اورالحمداللہ اس وقت سے لیکر اب تک بلا ناغہ دورہ حدیث تک کی تعلیم جاری ہے اور خدا کرے قیامت تک جاری رہے اور انشاء اللہ جاری رہے گی۔
ان حضرات نے اپنے تبحر علمی اور خلوص و ایثار سے اس جامعہ کے علمی معیار کو اتنا بلند کیا کہ اس کی نظیر خال خال ہی ملے گی اور جامعہ کو تعمیری اعتبار سے اتنی ترقی اور وسعت دی کہ قلیل مدت میں ہی جامعہ دینی شہرت کا حامل بن گیا اور دور دور سے طلبہ مشل پروانہ اس منارہ علم کی طرف اپنے دل و دماغ کو دین حق کی شعا عوں سے منور کرنے کے لئے بتیابانہ آنے لگے۔
اس ملک کے طول و عرض میں مذکورہ تینوں علماء نےدینی علوم پر اپنی مضبوط گرفت کی وجہ سے ایسا نام پیدا کیا کہ جامعہ مفتا ح العلوم دینی تعلیم کے ہر شعبہ میں پورے ملک میں ایک سند کی حیثیت سے معروف ہو گیا ان با صلاحیت یکتائے روزگار علماء کی مسلسل جدوجہد جامعہ کو ایسی منزل پر پہنچادیا جہاں یہ اپنی عظمت پر بجا طور سے فخر کر سکتا ہے۔
درس و تدریس کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا عبداللطیف صاحب نعمانی نے اپنے رفقاء کے ساتھ قومی تحریک آزادی میں سر گرم حصہ لیکر جامعہ کو ایک انفرادیت بخشی بایں معنی کہ انہوں نے اپنے بے شمار شاگردوں میں آزادی کی ایک امنگ بھر دی اور باطل کی قوتوں سے مرعوب نہ ہو نے کا ایک لازوال سبق اپنے ذاتی عمل سے دیا چنانچہ آج تک طلبہ میں سر فروشانہ ذہنیت و حق پرستی اور عمل و علم کا امتزاج پیدا کرنا اس جامعہ کا خاصہ بن چکا ہے ، جہاں سے تحصیل علم کے بعد ہزاروں افراد ملک اور قوم و ملت کی خدمت اور دین کی اشاعت میں سر گرم عمل ہو جاتے ہیں۔
جامعہ کی پر شکوہ عمارت اس کی باطنی عظمت کی نشاندہی کرتی ہے۔ شاہی مسجد کی جنوبی مشرقی سمت میں درجات کے لیئے بیرونی طلبہ و اساتذہ کے قیام کے لئے اور نظامت کے فرائض کی انجام دہی کے لئے پختہ کمروں کا ایک سلسلہ ہے جو سہ منزلہ کی شکل میں اپنے شاندار ابواب کے ساتھ ایک پر وقار منظر پیش کرتا ہے۔ بالخصوص جامعہ کی لائبریری کی خوبصورت ساخت اس کی تزئین اعلیٰ جمالیاتی ذوق کی مظہر ہے جہاں اسلامی علوم و فنون پر بیش بہا کتابوں کا ایک لازوال خزانہ ہے جس سے تشنگان علم اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ اور اب شاہی مسجد کی تعمیر جدید نے تو ایسی وسعت اور فن تعمیر کے دلآویز طرز و عظمت اور سطوت نے جامعہ کے وقار میں ظاہری و باطنی دونوں نقطہ نظر سے بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔
علاوہ ازیں جامعہ نے مئو شہر میں بارہ تعلیم گاہیں قائم کر رکھی ہیں۔ جن کی بحمداللہ اپنی عمارتیں ہیں پھر بھی طلبہ کی کثرت کے لحاظ سے ہر جگہ تنگ دامانی کی شکایت ہے، اس کے علاوہ ملت کی بچیوں کی دینی تعلیم و تربیت کے لئے الجامعۃالاسلامیہ للبنات کے نام سے ادارہ کا قیام بھی ہے جہاں طالبات درس نظامیہ کے مطابق قرآن و حدیث ،تفسیر و عقائد ، صرف ونحو اور عربی ادب کی تعلیم حاصل کرتی ہیں اور عالمہ،حافظہ، قاریہ بن کر نکلتی ہیں نیز سماج و معاشرہ کی صلاح و فلاح کی خدمات انجام دیتی ہیں۔
اسی طرح دینی و عصری مشطرقہ نصاب تحت جونیئر ہائی اسکول ، ہائی اسکول اور انٹر میڈیٹ کی تعلیم و طربیت کا انتظام جاری و ساری ہے۔
ظاہر ہے کہ ین تمام منصوبون کی تکمیل کے لئے کثیر سرمایہ کی ظرورت ہے اس لئے ہمیں اور آپ کو اس مشن کی تکمیل میں مسلسل دست تعاون بڑھا نا ہوگا۔ کیوں کہ مشکلات کے مراحل آپ کی امداد کے بغیر طے کرنا ممکن نہیں ہیں۔لہٰذا ہم خدام جامعہ آپ پرزور اپیل کرتے ہیں کہ آپ مالی وسائل کی فراہمی میں جامعہ کا بھرپور کریں تا کہ جامعہ تمام منصوبہ بندی پر محنت ، خلوص اور جانفشانی کے ساتھ امت مسلمہ کے بچوں اور بچیوں کے مستقبل کو تعلیم و تربیت کے ذریعہ روشن کرنے کی کوشش کرتا رہے۔ وما ذ لک علی اللہ بعزیز ۔

قوم و ملت کی ترقی تعلیم سے وابستہ ہے؛ اپنے بچوں کے روشن دینی مستقبل کے لیے جامعہ مفتاح العلوم کا انتخاب کیجیے۔

رابطہ

موبائل نمبر:

ای میل :

پتہ: شاہی کٹرہ مئوناتھ بھنجن ضلع مئو، اترپردیش، ۲۷۵۱۰۱۔ انڈیا

Copyright © 2025 Jamia Miftahul Uloom. All Rights Reserved.